نظم۔ایک شام

نظم۔ایک شام Cover Image

تمہاری یاد نے جب کان پکڑے

 

تمہاری آہٹوں نے زور پکڑا

 

یہاں ویران دل کی بستیوں میں

 

 قیامت کی سحر تک برف گرتی

 

یہ خونِ دل ہمارا جم نہ جاتا

 

اگر زلفوں سے تیری خم نہ جاتا

 

مری فریاد سنتے ٹھیک ہوتا

 

مرے ٹکڑوں کو چنتے ٹھیک ہوتا

 

جواں لاشوں پہ پلتے چیل کوّے

 

تمہاری آنکھ میں اچھا نہیں ہے

 

نظارہ اسلئے مجبور ہوں میں

 

سمجھتے ہو بہت مغرور ہوں میں

 

جہاں یوسف نبی تھے قید اپنے

 

وہاں بھی لاکھ چوہے گھومتے ہوں

 

مگر پھر حسن نے فطرت نہ بدلی

 

!مکرم عشق نے خصلت نہ بدلی

 

خیالوں سے اٹھا تو چیخ اٹھا

 

کوئی گر آپ میں انسان ہوگا

 

مرا گھر پاس ہے مقتل کے یارو

 

وہاں پر پول پے بتی جلی ہے

 

وہاں جاکر مرا پیغام بھیجو

 

کہ ان کا لاڈلا کس حال میں ہے

 

سرِ طوفان کشتی کھول دی ہے

 

نہ جانے کس بلا میں دل لگا ہے

 

نہ جانے کیا وظیفہ پڑھ رہا ہے

 

یہ کب سے خود سے باتیں کر رہا ہے